سوال) کیا شیعہ روایات میں بھی ٹخنوں سے اوپر شلوار رکھنے کی تاکید آئی ہے؟ وضاحت کیجئے
جواب) یہ روایات موجود ہیں لیکن ان روایات کا اب موضوع نہیں رہا۔۔۔ احادیث میں تتبّع سے معلوم ہوتا ہے کہ پاؤں کے سے نیچے شلوار یا کپڑا ہونے کی ممانعت کی چند وجوہات تھیں؛
1) یہ تکبّر کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ پرانے زمانے کے امراء اور سلاطین لمبے پوشاک پہنتے تھے اور بعض اوقات ایک نوکر باقاعدہ سے پیچھے سے اس پوشاک کو اٹھا کر رکھتا تھا۔ جیسا کہ کافی کی روایت ہے؛
حضرت امام باقر ع سے منقول ھے کہ جناب رسول اللہ ص نے بنو تمیم کے ایک شخص کو وصیت فرمائی کہ:
ایاک واسبال الازار والقمیص فان ذالک من المخیلہ واللہ لا یحب المخیلہ
خبردار! اپنا پیراہن اور پاجامہ بہت نیچا نہ کیجیو کیونکہ یہ تکبر کی علامت ھے اور خدا تعالی تکبر کو دوست نہیں رکھتا.
اس حدیث کو علامہ باقر بہبودی اور شیخ ھادی نجفی نے صحیح قرار دیا جبکہ علامہ مجلسی نے حسن قرار دیا.
2) قمیض یا پاجامہ ٹخنوں سے نیچے رکھنے سے لباس نجس ہونے کا چانس بہت بڑھ جاتا تھا۔ اس زمانے میں جبکہ لوگ بیابانوں میں رفع حاجت کرتے تھے، اس قدر بلند کپڑے پہننا مشکلات کا باعث ہوتا تھا اور نجاست کے چانسز بڑھ جاتے تھے، جیسا کہ روایت ہے؛
امام موسی کاظم (ع) نے "وثیابک فطھر" کی تفسیر میں فرمایا کہ حضور اکرم ص کے کپڑے تو پاک وپاکیزہ ھی تھے لہذا مراد اللہ کا اس سے یہ ھے کہ اپنے کپڑے اونچے رکھو کہ نجاست میں وہ آلودہ نہ ھو پائیں.(تہذیب)
نتیجہ:
آجکل کے زمانے میں یہ دونوں موضوع موجود نہیں ہیں۔ اللہ تعالی نے ہمیں غور و تدبر کرنے کا اسی لئے حکم دیا ہے کہ ہم محض خر مقدّس نہ بنیں بلکہ احکامات میں تدبّر کریں۔ کچھ احکامات خاص موضوع یا زمان و مکان کیلئے تھے۔ لہذا آجکل وہ لباس جو معمول کے مطابق ٹخنوں سے نیچے ہو اس کو غرور و تکبر کی علامت نہیں سمجھا جاتا بلکہ بہت جگہوں پر یہ رواج ہے۔ اس صورت میں اس لباس کا پہننا بلااشکال ہے۔
اب نظافت و صفائی کے لوازمات پہلے سے زیادہ ترقی یافتہ اور بہترین ہیں، لہذا وہ شلوار یا پینٹ جو ٹخنوں سے ذرا نیچے ہو ان کے پہننے سے نجاست کا چانس نہیں ہوتا۔۔۔ ہاں اگر ایسا لباس پہنا جائے جو زمین پر گھسٹتا ہو تو نجاست کے چانسز بڑھ جاتے ہیں اور یہ اب بھی تکبر کی علامت ہے لہذا ایسا لباس پہننا درست نہیں۔
لیکن عام استعمال میں آنے والے کپڑے جو زمین پر گھسٹتے نہیں اور عام طور پر رائج ہو، اس کا پہننا بلا اشکال ہے۔