السلام علی الحسین وعلیٰ علی ابن الحسین وعلیٰ اولاد الحسین و علیٰ اصحاب الحسین و رحمة اللہ وبرکاتہمحرم الحرام کا مقدس اور متبرک مہینہ ہم پر سایہ فگن ہو رہا ہے جس میں سالار شہیدان حضرت امام حسین علیہ السلام اور ان کے جانثار اصحاب کی عظیم الشان قربانیوں کی یاد تازہ کی جاتی ہے۔ واقعہ کربلا کے عظیم پیغام اور فلسفہ شہادت امام حسین ؑ کو جلا بخشنے اور مظلوم قوم کو جذبہ¿ حسینیؑ سے سرشار کرنے کے لئے محبان و عاشقان اہلبیت ؑ ہر برس حسب عمل قدیم مجالس حسینیؑ، جلوس ہائے عزا، سمیناروں اور جلسے جلوسوں کا پروگرام ترتیب دیتے ہیں اور اسلام کے جیالے فرزندان ان پروگراموں میں اپنی بھرپور شرکت کو یقینی بناکر اور فدایانِ حسین ؑ کا ثبوت دیکر امام عالی مقام ؑ کے تئیں اپنی محبت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔اس برس بھی ماہ محرم الحرام اور سانحہ کربلا کی یاد کی تجدید کے ایام قریب آپہنچے ہیں اور دیکھا جا رہا ہے کہ کرونا کی وباءبدستور موجود ہے اور متعلقہ حکام کسی بھی جگہ اور خاص طور پر بند مقامات پر بڑے اجتماعات کے انعقاد سے گریز کرنے کی ضرورت پر زور دے رہے ہیں۔ اس وجہ سے آنے والے محرم الحرام میں مومنین روایتی انداز میں عزاداری اور مجالس کا اہتمام کرنے کے بارے میں شش و پنج اور الجھاو¿ کا شکار ہے اور اس بارے میں تشویش میں مبتلا ہے کیونکہ ہر سال پہلے سے ہی عزاداری کے اہتمام اور مجالس کے انعقاد کے بارے میں انتظامات کئے جاتے ہیں اور اس بارے میں سنجیدگی سے اقدامات اٹھائے جاتے ہیں۔ اس برس چونکہ کورونا وائرس کی وبا کے پیش نظر مساجد اور امام باڑے بند ہیں اور کسی بھی اجتماع کے انعقاد پر پابندی ہے لہٰذا ضروری ہے کہ ہر ممکن احتیاط کو مدنظر رکھتے ہوئے عزاداری اور مجالس کا انعقاد کیا جائے۔ بہت سے مومنین سوال کر رہے ہیں کہ انہیں سید الشہداءامام حسین (علیہ السلام) اور ان کے اہل وعیال وانصار (علیہم السلام) کی عزاداری کے قیام کے لیے کیا کرنا چاہیے؟ جبکہ مومنین کی اشد خواہش ہے کہ وہ معمول کے مطابق ہونے والے مراسم عزاءکو جاری رکھیں۔کرونا وائرس وبا کے پیش نظر محرم الحرام میں عزاداری کے مراسم کو سابقہ طریقہ سے جاری رکھنے کا چونکہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا لہٰذا اس بارے میں ضروری ہے کہ مومنین کی ہر ممکن رہنمائی کی جائے تاکہ انفیکشن کے پھیلاو¿ اور جانوں کے اتلاف کو روکا جاسکے۔ اس بارے میں ہمارے مراجع تقلید، آیات عظام اور مقتدر علماءنے بھی فتوے جاری کئے ہیں اور اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے جن کو ہم ذیل میں تفصیل کے ساتھ بیان کریں گے۔جہاں تک کشمیر کی سنتی عزاداری کی انفرادی ماہیت اور طریقہ¿ انعقاد کا سوال ہے، تو یہ بات وثوق کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ ان مراسم میں لوگوں سے احتیاطی تدابیر اختیار کرنے اور میڈیکل پروٹوکولز کی رعایت کرنے کی اپیلیں اور منت سماجت کرنا ہوائی قلعے بنانے کے مترادف ہیں جو بنانے سے پہلے ہی ڈھیر ہو جاتے ہیں کیونکہ روایتی کشمیری مرثیہ خوانی اور عزاداری میں باہمی فاصلوں اور سوشل ڈسٹنسنگ کی بات کرنا ہی تضاد ہے اور یہ کہ پورے احتیاط کے ساتھ ان تقریبات کا انعقاد ممکن ہی نہیں ہے کیونکہ ایسی مجالس میں اس قسم کا احتیاط کرنے کا کوئی مطلب ہی نہیں ہے۔مجلس کا اجتماع اور لوگوں کے مجمع کے بغیر روایتی عزاداری کا تصور کرنا ہی مشکل ہے کیونکہ عرف عام کے مطابق مجلس نہیں ہوتی تو محرم کیسے ہوتا۔ دوسری جانب ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ اس قسم کا جو بھی اجتماع ہوگا، وہ وائرس کے پھیلاو¿ کے لئے ایک کھلی اور آزاد فضا مہیا کرنے کے مترادف ہے اور یہ ایک اہم خطرہ ہوگا۔ جب تمام ماہرین کے مابین اتفاق رائے ہے کہ اجتماعات سے اجتناب کیا جائے تو اس معاملے کو احتیاطی تدابیر اخذ کرنے کا مطلب دراصل ایک ملائم لبادے میں اوڑھ کر اور پیچیدہ بنانے کے سوا اور کچھ نہیں۔اس لیے احتیاط کرنے کی اپیلیں کرنے سے بہتر یہ ہے کہ اس سال محرم انفرادی سطح پر گھروں میں منایا جائے اور مومنین کو اپنے گھروں میں رہ کر مجالس سننے کی ترغیب دلائی جائے تاکہ کمیونٹی سطح پر وائرس کے پھیلاو¿ کو روکا جاسکے۔ ان حالات میں جبکہ جمعہ و جماعات اور حتیٰ حج کو وائرس کے پھیلاو¿ کے پیش نظر روکا جاسکتا ہے تو عزاداری جیسا ایک مستحب عمل اگر انفرادی سطح پر گھروں میں بیٹھ کر انجام دیا جائے تو اس میں کوئی عذر نہیں۔ جب بھی انسانی صحت و سلامتی کو نقصان پہنچنے کا احتمال ہو تو اسلام میں روزہ جیسی واجب عبادت اور عمل بھی ساقط ہو سکتی ہے۔ مومنین اس بات سے بھی آگاہ ہوں گے کہ آیة اللہ العظمیٰ سیستانی کے احکامات پر محرم الحرام کے پہلے دس دن کے دوران شہر کربلا اور امام حسین ؑ کا مبارک روضہ کسی بھی بیرونی زائر کے لیے بند کیا گیا ہے اور ہمارے امامباڑے وغیرہ روضہ امام حسین ؑ کی ہی شبیہ ہے تو جب اصل ہی ہمارے لیے بند ہے تو اس کی شبیہ کو ان ایام میں بند کرنا ہرگز توہین کے زمرے میں نہیں آتا اور مومنین کو قطعی طور پر اپنی برادری میں کسی مجلس کی میزبانی کرنے کی ضرورت نہیں ہے جو آپ کے کنبے یا اہلخانہ کے علاوہ کسی اور کے ساتھ ہو۔ لوگوں کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اگر محرم کے پہلے دس دن کے دوران کربلا کی سرزمین بند ہے اور ان ایام میں جس میں عاشورا بھی شامل ہے ایسی احتیاطی تدابیر اختیار کی گئی ہیں تو پھر بڑے پیمانے پر مجالس کے انعقاد یا ان میں شرکت کرنے کے بارے میں سوچنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔:مراجع تقلید اور مجتہدین کے فتویٰ: ذرا توجہ کریں کہ ہمارے مراجع تقلید اور مجتہدین عظام اس بارے میں کیا فرماتے ہیںمورخہ 9 ذی الحجہ 1441 ہجری بمطابق 30 جولائی 2020ءکو نجف اشرف عراق میں آیة اللہ العظمیٰ سید علی سیستانی مد ظلہ العالی کے دفتر نے محرم الحرام 1442ھ میں امام حسین علیہ السلام کی عزاداری سے متعلق ایک استفتاءکا جواب دیا ہے۔ اس اعلی دینی قیادت کی طرف سے اس بارے دیئے گئے جواب کو آپ کی خدمت میں پیش کرتے ہیں۔ آقا نے اپنے مفصل جواب میں فرمایا:ایسے بہت سے طریقے اور راستے ہیں جن پر عمل پیرا ہو کر اس المناک سانحہ پر رنج وغم کا اظہار کیا جا سکتا ہے اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کے اہل بیت اطہار (علیہم السلام) کو اسلام اور مسلمانوں پر ٹوٹنے والی اس بہت بڑی مصیبت کا پرسہ پیش کیا جا سکتا ہے۔ ان میں سے چند درج ذیل ہیں۔ ٹیلی ویڑن چینلوں اور انٹرنیٹ پر زیادہ سے زیادہ مجالس عزاءکو براہ راست نشر کیا جائے۔ مذہبی وثقافتی مراکز اور اداروں کے لیے ضروری ہے کہ اس کام کے لیے اچھے خطبائ، ذاکروں اور نوحہ خوانوں کی خدمات حاصل کریں اور مومنین کو اپنی رہائش گاہوں میں رہتے ہوئے ان مجالس کو سننے اور اپنے جذبات کا اظہار کرنے کی ترغیب دیں۔۔ رات یا دن کے مخصوص اوقات میں گھروں میں مجالس عزاءکا انعقاد کیا جائے اور ان میں صرف گھر کے افراد اور ان کے ساتھ رابطے میں رہنے والے لوگ حاضر ہوں۔ ان گھریلو مجالس عزاءمیں مفید مجلسوں کو سنا جائے، چاہے وہ ٹیلی ویڑن یا انٹرنیٹ سے براہ راست نشر ہونے والی مجالس ہی ہوں۔البتہ جہاں تک عمومی مجالس عزاءکا تعلق ہے تو ان میں صحت کے قواعد وضوابط کی سختی سے پابندی کی جائے، کورونا کی وباءکو پھیلنے سے روکنے کے لیے اجتماعی دوری، ماسک اور دیگر احتیاطی تدابیر پر عمل کیا جائے اور متعلقہ حکام کی ہدایات کے مطابق حاضرین کی تعداد بھی محدود رکھی جائے کہ جو مجلس کے انعقاد کی کھلی یا بند جگہ اور علاقے میں وباءکے پھیلاو¿ کے مختلف ہونے کو مدنظر رکھتے ہوئے مختلف ہو گی۔۔ عاشورائی مظاہر کو زیادہ سے زیادہ تقسیم کیا جائے۔ چوکوں، سڑکوں، گلیوں اور اسی طرح کے دیگر عوامی مقامات پر کالے علموں اور بینروغیرہ بڑے پیمانے پر آویزاں کیا جائے، اس سلسلہ میں نجی ودیگر املاک کے احترام کا خیال رکھا جائے اور ملک میں نافذ قوانین کی خلاف ورزی بھی نہ کی جائے۔ ضروری ہے کہ بینرز امام حسین علیہ السلام کے عظیم اصلاحی انقلاب میں فرمائے گئے اقوال پر مشتمل ہوں، یا ان پر سانحہ کربلا کے بارے میں کہے گئے بہترین اشعار یا نثری اقوال کو تحریر کیا جائے۔۔ جہاں تک اس مناسبت پر تقسیم کی جانے والی نیاز اور تبرک کا تعلق ہے تو اس کو پکانے اور تقسیم کرنے کے دوران صحت کے اصولوں کا خاص خیال رکھا جائے اگرچہ وقت کا تقاضا یہ ہے کہ خشک غذائی مواد کو نیاز کے طور پر غریب مومنین کے گھروں تک پہنچایا جائے تاکہ نیاز کی تقسیم کے وقت رش سے بچا جا سکے۔خدا ہر ایک کو موجودہ حالات میں ہر ممکن طریقے سے اس اہم مناسبت کے احیاءاور جوانانِ جنت کے سردار کی عزاداری کے قیام کی توفیق عطا کرے، بیشک اللہ ہی توفیق دینے والا نگہبان ہے۔آیت اللہ العظمی سید علی حسینی سیستانی(دام ظلہ) کے نجف اشرف کے دفتر سے اس مفصل جواب کے بعد عالم تشیع کے اہم مرجع تقلیداور ولی امر مسلمین آیة اللہ العظمی سید علی خامنہ ای مد ظلہ العالی نے اپنے ایک ٹوئیٹ میں محرم الحرام کے مہینے میں عزاداری کے پروگراموں کے انعقاد کے سلسلے میں اپنا نقطہ نظر بیان فرمایا۔ جولائی2020ءکو ولی امر مسلمین آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے اپنے ٹوئیٹ کے ذریعے درجہ ذیل اعلان فرمایا:محرم اور عزاداری کے مراسم کے انعقاد کے بارے میں معیار یہ ہے کہ ماہرین صحت اور کرونا کا قومی ہیڈکواٹر کیا کہتے ہیں۔ جو وہ کہیں گے میں خود شخصاً اسی پر عمل کروں گا۔ مداحوں اور ذاکروں کو میرا یہی مشورہ ہے کہ وہ یہ دیکھیں کہ نیشنل کرونا ہیڈکوارٹر کیا کہتا ہے، اس پر عمل کریں۔یہ بیان بھی واضح ہے اور اس میں کوئی ابہام نہیں۔ بہت واضح، مدلل اور سائنسی اور یہی چیز اسے دوسروں سے مختلف بناتی ہے۔ رہبر معظم کی تاکید ایک ہی چیز پر ہے اور وہ یہ کہ اس بارے میں ماہرین کی رائے کی پیروی کی جائے۔جہاں تک کرونا وائرس کے پھیلاو¿ کا تعلق ہے تو ماہرین کی رائے ہے کہ مجلسیں اور ایسے اجتماعات ہی ہیں جہاں وائرس کے پھیلنے کا زیادہ احتمال ہے۔ مجلس میں شریک ایک پازیٹیو شخص تمام شرکت کرنے والوں کو اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے اور جہاں تک کورونا وائرس کا تعلق ہے تو ”محفوظ اجتماع“ کا تصور فقط ایک سفسطہ اور متناقض کلام ہے۔ بقولی یہ بہت سیکولر وائرس ہے جو مذہب یا فرقوں کی بنیاد پر لوگوں کے درمیان فرق نہیں کرتا بلکہ تمام مذاہب کے ساتھ یکساں سلوک کرتا ہے۔ یہ وائرس ہر قسم کے اجتماعات میں پھیل سکتا ہے اور اس تاثر میں نہیں رہتا ہے کہ یہ کن افراد اور کس مسلک کا اجتماع ہے۔رہبر معظم انقلاب اسلامی امام خامنہ ای اور آیت اللہ سید علی الحسینی سیستانی نے محرم 1442 ہجری میں سوگ اور ماتم کی تقریبات کی یاد میں ہم سے SOPs اورماہرین صحت کے مشوروں پر عمل کرنے پر زور دیا ہے۔ مزید برآں ، مقامی ماہرین صحت سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ محرم کی رسومات کے دوران ضروری احتیاطی تدابیر جاری کریں جو ہمیں اپنانے کی ضرورت ہے۔ لہذا وائرس کے بارے میں ماہرین صحت کی دی گئی معلومات پر مبنی اور مراجع عظام اور مجتہدین کے فتوو¿ں کی روشنی میں ہر شخص کی مذہبی ذمہ داری ہے کہ اپنی جان اور دوسروں کی زندگی کی حفاظت کے لئے اپنے گھر پر ہی محرم منائے۔:نذر و نیاز اور تبرک کا اہتماممحرم، عزاداری اور مجالس کے حوالے سے ایک اور مسئلہ ، اس موقعہ پر تقسیم کی جانے والی غذا، نیاز اور تبرک کا ہے۔ مومنین نے کسی خاص شب یا روز کی مناسبت سے عزاداروں یا عموم مسلمین کے لئے نیاز اور تبرک بانٹنے کی نیت سے کچھ رقم مختص کی ہوتی ہے اور عام طور پر محلہ، گاو¿ں یا عموم مونین کو مدعو کرکے انہیں کھانا وغیرہ کھلایا جاتا ہے اور اس کے لئے بھی روایتی کشمیری طریقہ یعنی اجتماعی صورت میں چار نفری ترامیوں کا استعمال کیا جاتا ہے جس سے بند کمرے یا محدود فضا میں اژدھام ہوتا ہے۔ جہاں تک اجتماع کا تعلق ہے تو آقائے سیستانی نے واضح الفاظ میں فرمایا ہے کہ نیاز کی تقسیم کے وقت رش اور اژدھام سے بچا جائے اگرچہ وقت کا تقاضا یہ ہے کہ بھیڑ سے بچنے کے لیے صرف خشک کھانا دینا پڑے یا پھر غذائی مواد کو نیاز کے طور پر غریب مومنین کے گھروں تک پہنچانے پر اکتفا کرنا پڑے۔ دیگر یہ کہ نیاز کو پکانے اور تقسیم کرنے کے دوران میڈیکل پروٹوکولز کا پورا خیال رکھا جائے۔ تبرک کو خشک غذائی پیکٹوں کے ذریعے مومنین میں تقسیم کرنے کی تلقین کرنا دراصل آقائے سیستانی صاحب کے اس دوسرے فتوے کی ضمنی تائید ہوتی ہے کہ محرم میں امام حسین (ع) کے نام پر جو بھی نیاز کی رقم معین کی گئی ہو اسے کسی دوسرے کام میںاستعمال نہیں کیا جاسکتا بلکہ جیسے بھی ہو نذر امام حسین ؑ کی نیت سے ہی غریب مومنین کے گھروں تک پہنچایا جائے۔ اس کے برعکس رہبر معظم آقائے خامنہ ای کے فتویٰ کے مطابق موجودہ کرونا وائرس اور لاک ڈاون کے پیش نظر مومنین امام حسین ؑ کے نام پر جو بھی رقم یا دوسری چیزیں نذر کرتے ہیں اگر تعاون کرنے والے متفق ہوں تو اسے غریبوں کی مدد کے لئے استعمال کرسکتے ہیں۔ اس حساب سے آقائے خامنہ ای کے مقلدین نذر و نیاز کے پیسوں کو عزاداروں کے لئے غذا فراہم کرنے کے بجائے غریب مومنین کی امداد اور حمایت کے لئے بھی استعمال کرسکتے ہیں۔: مجالس منعقد کرنے کے لئے احتیاطی تدابیرمیں جانتا ہوں اور مجھے سوفیصد یقین ہے کہ محرم میں مجالس عزا کے بارے میں بیان شدہ لائحہ عمل، قواعد اور طریقہ کار کو کہیںپر کوئی بھی توڑ دے گا اور مجلس کو ایسے انداز میں منعقد کیا جائے گا جس میں معاشرتی فاصلاتی ہدایات اور احتیاطی تدابیر پر عمل نہیں کیا جاسکتا ہے۔اس لیے ان جیسے افراد کے لئے اتمام حجت کے طور پر محرم الحرام کے دوران عزاداری اور مجالس کے لئے انتظام اور SOPs کی نشاندہی کر رہا ہوں اور اگر ان احتیاطی تدابیر کی عمل آوری ممکن ہے تو مندرجہ ذیل نکات پر سختی کے ساتھ عمل آوری کے بعد مجالس کا اہتمام کیا جاسکتا ہے۔ محلہ جات اور دیہات میں مقامی سطح پر مختصر مجالس کا اہتمام کیا جائے جن میں صرف وبا سے محفوظ افراد شرکت کریں گے کیونکہ مقامی سطح پر مشکوک افراد کی شناخت بہت حد تک ممکن ہے۔۔ مجالس میں داخل ہونے سے پہلے مومنین اگرچہ عام طور پر وضو کرتے ہیں پھر بھی ہاتھ دھونے اور سینئٹیزر کا انتظام کیا جائے۔۔ ماسک کے بغیر کسی کو داخلے کی اجازت نہ دی جائے ۔۔ مجالس میں فاصلے کا خیال رکھا جائے گا۔۔ مجالس مختصر ہوں گی اور مقررہ وقت پر انہیں شروع اور ختم کیا جائے گا۔۔ مقامی سطح پر لائسنس یافتہ روایتی جلوسوں کو احتیاطی تدابیر کے ساتھ برآمد کیا جائے گا اور ان جلوسوں میں ہینڈ سینئٹیزر اور ماسک کا استعمال لازمی ہوگا۔۔ جگہ جگہ مقامی جوانان اور رضاکاران ان ہدایات پر سختی سے عملدرآمد ممکن بنائیں۔:حاصل کلاماحتیاطی تدابیر اختیار کریں، میڈیکل پروٹوکولز کی رعایت کریں، ماسک پہنیں اور معاشرتی دوری اختیار کریں لیکن گھر میں رہنا بہتر ہے۔براہ کرم گھر پر ہی رہیں اور اندرونی طرز کے بڑے اجتماعات سے گریز کریں۔براہ کرم اپنی اور اپنے پیاروں کی حفاظت کریں ، بہتر دن آئیں گے ... اور ہم سب ایسے اجتماعات منعقد کرنے کے لیے محفوظ ہوں گے۔ انشاءاللہمجھے یقین ہے کہ شہدائے کربلا کو انفرادی سطح پر نذرانہ¿ عقیدت پیش کرنا، گھر میں ہی رہ کر ماتم کرنا اور اکیلے میں اس مصیبت عظمیٰ پر آنسو بہانامجھے ابا عبد اللہ الحسین (ع) کا کم عزادار نہیں بنائے گا۔ گر میں غمگین ہوں تو اپنے گھر پربھی اپنے غمگین ہونے کا اظہار کرسکتا ہوں جو ایک تو کسی بھی ریاکاری سے پاک ہوگا اور دوسرا یہ کہ اپنی جان اور دوسروں کی زندگیوں کی حفاظت کرنے کا ثواب بھی حاصل کروں گا جو مجھے دنیا میں بھی مولیٰ حسین (ع) کا ایک عزادار بنا دیتا ہے اور آخرت میں بھی ان کے چاہنے والوں کے ساتھ محشور کرنے کا باعث ہوگا۔:نوٹاس مقالہ میں مجتہدین عظام کے بیانات کے تحت بیان کئے گئے خیالات میری ذاتی رائے ہے جو اس مسئلے کے بارے میں کچھ حاصل کی گئی معلومات کے مطابق ہے۔ دوسرے افراد اپنے علم اور اعتقاد پر مبنی مختلف نقطہ نظر رکھنے کے لئے آزاد ہیں۔
Wednesday, 5 August 2020
کرونا وائرس وبا کے پیش نظر عزاداری کا طریقہ
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment